ممتاز حسین

کتاب پر تبصرہ

اقرار الدین خسرو کی کتاب “کھوار برکش” آئے ہوئے کافی دن ہوگئے ہیں۔ مجھے یہ کتاب آج ملی، اس لیے اس پر چند جملے لکھ رہا ہوں۔

کھوار زبان میں شاعری نا معلوم زمانے سے ہورہی ہے اور گیتوں کی صورت میں لوگوں کا کلام سینہ بسینہ روایت ہوتا آیا ہے۔ کلام جب تک تحریر میں نہیں آتا وہ فوک لٹریچر کہلاتا ہے۔ اس قسم کا لٹریچر قواعد وضوابط کا زیادہ پابند نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی کوئی متعین شکل (صنف) ہوتی ہے۔ کھوار کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا۔ لیکن جب گزشتہ صدی کے وسط سے کھوار لکھنے کا آغاز ہوا تو یہاں کے شعراء نے فارسی اور اردو شاعری کے اصناف (مثلاً غزل) میں بھی طبع ازمائی شروع کی۔ اس وقت یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کیا کھوار غزل لکھتے ہوئے ان لوازمات کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جو فارسی اردو وغیرہ زبانوں میں مروج ہیں۔ تھوڑے بہت چترالی شعراء نے اردو سے شعری قواعد (عروض) سیکھ کر ان کو کھوار شاعری میں استعمال کرنا شروع کیا جب کہ اکثریت نے بغیر قواعد کے شاعری جاری رکھی۔

عروض کی پیروی نہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صدیوں سے جو کام بغیر قواعد کے ہوتا رہا تو ہم کیوں اسے پابند کریں۔ بقول شاعر:

فریاد کی کوئی لے نہیں ہے .. نالہ پابند نے نہیں ہے

اس کا جواب عروضیوں کے پاس یہ ہے کہ ماضی میں ہونے والی شاعری فوک ٹائپ کی تھی، جس کا کوئی فارم متعین نہیں تھا اس لیے قواعد کی پابندی ممکن ہی نہیں تھی۔ اب جب کہ ہم غزل، مثنوی، مسدس وغیرہ کے فارم میں لکھ رہے ہیں تو ان کے قواعد کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔

ایک اور اعتراض عروض کے استعمال پر یہ ہے کہ عربی فارسی کے قواعد کھوار میں استعمال نہیں ہوسکتے یا ان کا استعمال بہت مشکل ہے۔ اس مسئلے کو (اگر ایسا کوئی مسئلہ ہے تو) حل کرنے کے لیے جو کوششیں ہوئی ہیں ان میں سے نمایاں ترین کوشش زیر نظر کتاب ہے۔ مصنف نے اردو کے عروضی قواعد کو سمجھا ہے اور ان کو کھوار شاعری پر ایپلائی کرنے کے طریقے تلاش کیے ہیں۔ اس معاملے میں وہ روایتی عروض کے اصولوں پر کسی حد قائم رہے اور کہاں ان کو توڑ پھوڑ کر اپنے لیے راستہ بنایا ہے، یہ بات کوئی ماہر عروضی ہی بتا سکتا ہے۔

ایک جدت انہوں نے یہ کی ہے اردو فارسی کی مروجہ عروضی اصطلاحات کے لیے کھوار متبادل تجویز کیے ہیں۔ مثلاً تون، څھاتور وغیرہ۔ یہ اچھی خاصی محنت مشقت کا کام ہے۔

مصنف نے یوں تو پوری کتاب بڑی محنت اور دلجمعی سے لکھی ہے۔ کیا ہمارے شعراء اس کو کوئی اہمیت دیں گے بھی۔۔۔۔ یہ دیکھنے والی بات ہے۔

آخری بات۔۔۔۔۔ کھوار میں ترازو کو بار کش کہتے ہیں۔ کتاب کا مقصد تصنیف شاعری کو تولنے کے لیے پیمانے وضع کرنا ہے، اس لیے بر محل نام ہے۔ تاہم میرے خیال میں یہ لفظ “بار کش” ہے یعنی وزن اُٹھانے والا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *